Thursday 28 April 2011

بھول ہوی ہے

برگشتہ یزداں سے کچھ بھول ہوی ہے
بھٹکے ہوے انسان سے کچھ بھول ہوی ہے

تا حد نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں
پھولوں کے نگہباں سے کچھ بھول ہوی ہے

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوی ہے

ہنستے ہیں میری صورت مفتوں پہ شگوفے
میرے دل نادان سے کچھ بھول ہوی ہے

حوروں کی طلب اور مے و ساگر سے ہے نفرت
زاہد تیرے عرفان سے کچھ بھول ہوی ہے

No comments:

Post a Comment