برگشتہ یزداں سے کچھ بھول ہوی ہے
بھٹکے ہوے انسان سے کچھ بھول ہوی ہے
تا حد نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں
پھولوں کے نگہباں سے کچھ بھول ہوی ہے
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوی ہے
ہنستے ہیں میری صورت مفتوں پہ شگوفے
میرے دل نادان سے کچھ بھول ہوی ہے
حوروں کی طلب اور مے و ساگر سے ہے نفرت
زاہد تیرے عرفان سے کچھ بھول ہوی ہے
No comments:
Post a Comment